نئی نئی آنکھیں ہوں تو ہر منظر اچھا لگتا ہے
کچھ دن شہر میں گھومے لیکن اب گھر اچھا لگتا ہے
ملنے جلنے والوں میں تو سب ہی اپنے جیسے ہیں
جس سے اب تک ملے نہیں وہ اکثر اچھا لگتا ہے
میرے آنگن میں آئے یا تیرے سر پر چوٹ لگے
سناٹوں میں بولنے والا پتھر اچھا لگتا ہے
چاہت ہو یا پوجا سب کے اپنے اپنے سانچے ہیں
جو موت میں ڈھل جائے وہ پیکر اچھا لگتا ہے
ہم نے بھی سو کر دیکھا ہے نئے پرانے شہروں میں
جیسا بھی ہے اپنے گھر کا بستر اچھا لگتا ہے
غزل
نئی نئی آنکھیں ہوں تو ہر منظر اچھا لگتا ہے
ندا فاضلی