نئی ہوا میں کوئی رنگ کائنات میں گم
ہوا ہے سارا زمانہ تصنعات میں گم
گلے کا ہار کہیں بن نہ جائے محرومی
نہ ہونا بھول کے حسن تکلفات میں گم
کسی بھی شخص پہ اس کو ترس نہیں آتا
امیر شہر ہوا ہے یہ کن صفات میں گم
ہر ایک گل کو مری دسترس سے دور کیا
مری نظر ہے عدو کی نوازشات میں گم
بشر بشر نے مقفل کیا ہے باب عمل
ہر ایک ذہن ہوا کیسی نفسیات میں گم
کہیں بھی راہنما اب نظر نہیں آتا
میں کیا بتاؤں کہ ہوں کون سی جہات میں گم
حصول علم مرا مدعا ہے اے ابرارؔ
اسی لیے ہوں کتابوں میں اور لغات میں گم
غزل
نئی ہوا میں کوئی رنگ کائنات میں گم
ابرار کرتپوری