نہیں زمانے میں حاصل کہیں ٹھکانہ مجھے
کہاں کہاں لئے پھرتا ہے آب و دانہ مجھے
وہ دیکھتے ہیں بہ انداز مجرمانہ مجھے
کہ جن سے پیار ہے اے دوست والہانہ مجھے
جھلستی دھوپ میں اے کاش ایسا وقت آئے
نصیب ہو تری پلکوں کا آشیانہ مجھے
کبھی رہا نہ غریبوں سے واسطہ جس کو
وہ دے گا کیا مری محنت کا محنتانہ مجھے
بلا سے جرم ہو انصاف کی نگاہوں میں
تمہاری بات تو لگتی ہے منصفانہ مجھے
تلاش رزق میں آئے نہ جس میں کوتاہی
الٰہی دے وہی پرواز طائرانہ مجھے
میں سادہ لوحی پہ اپنی ہوں مطمئن یارو
خدا کے واسطے سمجھے نہ کوئی دانا مجھے
مری حیات کی یہ بھی عجیب الجھن ہے
بھلانا تجھ کو کبھی بھی لگا روا نہ مجھے
کتاب دی تھی صداقت کی ماں نے ہاتھوں میں
سفر پہ پہلے پہل جب کیا روانہ مجھے
خدا کا شکر ہے اے شوقؔ اب بھی زندہ ہوں
ستا رہا ہے زمانے سے یہ زمانہ مجھے
غزل
نہیں زمانے میں حاصل کہیں ٹھکانہ مجھے
شوق جالندھری