نہیں اڑاؤں گا خاک رویا نہیں کروں گا
کروں گا میں عشق پر تماشا نہیں کروں گا
مری محبت بھی خاص ہے کیونکہ خاص ہوں میں
سو عام لوگوں میں ذکر اس کا نہیں کروں گا
اسے بتاؤ فرار کا نام تو نہیں عشق
جو کہہ رہا ہے میں کار دنیا نہیں کروں گا
کبھی نہ سوچا تھا گفتگو بھی کروں گا گھنٹوں
اور اپنی باتوں میں ذکر تیرا نہیں کروں گا
ارادتاً جو کیا ہے اب تک غلط کیا ہے
سو اب کوئی کام بالارادہ نہیں کروں گا
تجھے میں اپنا نہیں سمجھتا اسی لیے تو
زمانے تجھ سے میں کوئی شکوہ نہیں کروں گا
مری توجہ فقط مرے کام پر رہے گی
میں خود کو ثابت کروں گا دعویٰ نہیں کروں گا
اگر میں ہارا تو مان لوں گا شکست اپنی
تری طرح سے کوئی بہانہ نہیں کروں گا
اگر کسی مصلحت میں پیچھے ہٹا ہوں تیمورؔ
تو مت سمجھنا کہ اب میں حملہ نہیں کروں گا
غزل
نہیں اڑاؤں گا خاک رویا نہیں کروں گا
تیمور حسن