نہیں تھا زخم تو آنسو کوئی سجا لیتا
کسی بہانے غم آبرو بچا لیتا
خبر نہ تھی کہ سیاہی کا جال پھیلے گا
لہو کی آگ سر شام ہی جلا لیتا
زباں پہ حرف بھی آیا جنوں کا پتھر بھی
میں بے لباس تھا کس کس کا آسرا لیتا
جگا دیا تھا دکھوں کے جلوس نے ورنہ
میں آج دامن شب تاب سے ہوا لیتا
پلٹ گیا کوئی لمحہ ٹھٹھک گئے ہیں قدم
کوئی جو ساتھ نبھاتا مری دعا لیتا
یہ کل کی بات نہیں آج کی کہانی ہے
وہ آج زخم نہ ہوتا تو میں چھپا لیتا
نہ جانے کون سی منزل مرا مکاں ہوتی
کہ میں وجود کی گٹھری اگر اٹھا لیتا

غزل
نہیں تھا زخم تو آنسو کوئی سجا لیتا
رشید نثار