نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں
اگے شاید زمیں سے خود بہ خود دیوار بیٹھے ہیں
سوار کشتی امواج دل ہیں اور غافل ہیں
سمجھتے ہیں کہ ہم دریائے غم کے پار بیٹھے ہیں
اجاڑ ایسی نہ تھی دنیا ابھی کل تک یہ عالم تھا
یہاں دو چار بیٹھے ہیں وہاں دو چار بیٹھے ہیں
پھر آتی ہے اسی صحرا سے آواز جرس مجھ کو
جہاں مجنوں سے دیوانے بھی ہمت ہار بیٹھے ہیں
سمجھتے ہو جنہیں تم سنگ میل اے قافلے والو
سر رہ خستگان حسرت رفتار بیٹھے ہیں
یہ جتنے مسئلے ہیں مشغلے ہیں سب فراغت کے
نہ تم بیکار بیٹھے ہو نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں
تمہیں انجمؔ کوئی اس سے توقع ہو تو ہو ورنہ
یہاں تو آدمی کی شکل سے بے زار بیٹھے ہیں
غزل
نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں
انجم رومانی