EN हिंदी
نہیں ملتے وہ اب تو کیا بات ہے | شیح شیری
nahin milte wo ab to kya baat hai

غزل

نہیں ملتے وہ اب تو کیا بات ہے

احمد ہمدانی

;

نہیں ملتے وہ اب تو کیا بات ہے
یہاں خود سے بھی کب ملاقات ہے

ترے دھیان کے سب اجالے گئے
بس اب ہم ہیں اور دکھ بھری رات ہے

ہماری طرف بھی کبھی اک نگاہ
ہمیں بھی بہت نشۂ ذات ہے

سلگتا ہوا دن جو کٹ بھی گیا
تو پھر آنچ دیتی ہوئی رات ہے

شکایت کسی سے تو کیا تھی مگر
گلہ ایک رسم خرابات ہے

نیا دکھ تو ملتا ہے کس کو یہاں
مگر غم کی ہر شب نئی رات ہے

ہر اک شام تازہ امید وصال
ہر اک روز روز مکافات ہے