نہیں معلوم یہ کیا کر چکے ہیں
ہم اپنے دل سے دھوکا کر چکے ہیں
ذرا کار جہاں بھی کر کے دیکھیں
بہت کار تمنا کر چکے ہیں
کوئی پتھر ہی آئے اب کہیں سے
ہم اپنے دل کو شیشہ کر چکے ہیں
زمانہ ہے برے ہمسائے جیسا
سو ہمسائے سے جھگڑا کر چکے ہیں
سمیٹے گا کوئی کیسے جو پتے
بکھرنے کا تہیہ کر چکے ہیں
بہت شفاف تھا بادل کا دامن
جسے ہم لوگ میلا کر چکے ہیں
وہ دل جس نے ہمیں رسوا کیا تھا
ہم آج اس دل کو رسوا کر چکے ہیں
غزل
نہیں معلوم یہ کیا کر چکے ہیں
انعام ندیمؔ