EN हिंदी
نہیں خیال تو پھر انتظار کس کا ہے | شیح شیری
nahin KHayal to phir intizar kis ka hai

غزل

نہیں خیال تو پھر انتظار کس کا ہے

فاطمہ وصیہ جائسی

;

نہیں خیال تو پھر انتظار کس کا ہے
یہ ذہن و دل یہ بلا وجہ بار کس کا ہے

بتائے کون یہ اہل خرد سے محفل میں
چمن ہے کس کے لئے خار زار کس کا ہے

ہمارا نام تو غیروں میں ہو گیا شامل
جو لوگ اپنے ہیں ان میں شمار کس کا ہے

کسی کو دولت دنیا کسی کو عزت نفس
خدا کی دین پہ اب اختیار کس کا ہے

عروس موت سے جلدی ہے کس کو ملنے کی
قدم بڑھا ہوا یہ سوئے دار کس کا ہے

فرشتے آ کے وصیہؔ سے بولے مرقد میں
لحد میں آپ کو اب انتظار کس کا ہے