نہیں جاتی اگر یہ آسماں تک
تو پھر اس چیخ کی حد ہے کہاں تک
چلو پانی سے وہ شعلہ نکالیں
اٹھائے جو زمیں کو آسماں تک
اب اگلے موڑ پر پاتال ہوگا
یقیں سے آ گیا ہوں میں گماں تک
زمانے کو سمجھ پایا نہیں ہوں
میں سمجھاتا رہوں خود کو کہاں تک
عجب اک کھیل کھیلا جا رہا ہے
نہ تھا جس کا ہمیں کوئی گماں تک
بہت ہی خوب صورت راستہ ہے
جو سیدھا جا رہا ہے رائیگاں تک
زمیں کے باب میں کچھ مشورے ہیں
ذرا میں جا رہا ہوں آسماں تک

غزل
نہیں جاتی اگر یہ آسماں تک
اسحاق وردگ