نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا
مگر نظروں ہی نظروں میں وہ اس کا واہ وا کہنا
سر محفل کرے رسوا مرا بے ساختہ کہنا
مرے فن کار یہ نازک خیالی واہ کیا کہنا
مرے ناراض شانوں کو تھپک کر بارہا کہنا
چلو چھوڑو گلے شکوے کبھی مانو مرا کہنا
کوئی مصروفیت ہوگی وگرنہ مصلحت ہوگی
نہ اس پیماں فراموشی سے اس کو بے وفا کہنا
وفا تو خیر کیا ہوتی چلو یہ بھی غنیمت ہے
مری بے بستگی کو خود رقیبوں کو برا کہنا
غزل
نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا
صبیحہ صبا