نہیں ہو تم تو ہر شے اجنبی معلوم ہوتی ہے
بہار زندگی کانٹوں بھری معلوم ہوتی ہے
چراغ زیست کی لو تھرتھراتی ہے چلے آؤ
مجھے ہر سانس اپنی آخری معلوم ہوتی ہے
بتاؤں کیا تمہاری چشم الفت کی اثر ریزی
رگ و پے میں اترتی برق سی معلوم ہوتی ہے
ستم مجھ پر اسی انداز سے پیہم کئے جاؤ
تمہاری دشمنی بھی دوستی معلوم ہوتی ہے
جہاں دیکھا کسی نے بھی ہمیں چشم محبت سے
پلٹ کر زندگی آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے
طواف دیر و کعبہ سے یہی حاصل ہوا مجھ کو
محبت ہی سراپا بندگی معلوم ہوتی ہے
جلیلؔ اک شمع حسرت بجھ گئی تو غم نہیں اس کا
ابھی داغ جگر میں روشنی معلوم ہوتی ہے

غزل
نہیں ہو تم تو ہر شے اجنبی معلوم ہوتی ہے
جلیل الہ آبادی