نہیں دیکھتا دن جسے چشم شب دیکھتی ہے
اندھیرا بھی اک دوسرے رنگ کی روشنی ہے
پرانے اندھیروں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
نئی روشنی کچھ یقینی نہیں روشنی ہے
چلی جائے بازار میں روشنی جب اچانک
چمکنے لگے جو بس اک دم وہی آدمی ہے
چمٹ جائے جو جسم سے موت سے لمحہ پہلے
جسے روکنا غیر ممکن ہو وہ زندگی ہے
اسی کی بدولت تو گھر اپنا گھر لگ رہا ہے
جو چیزوں کی بھر مار میں اک ذرا سی کمی ہے
پھٹے حال ایسا یہاں کوئی اور اب کہاں ہے
ذرا غور سے دیکھنا فرحتؔ احساس ہی ہے
غزل
نہیں دیکھتا دن جسے چشم شب دیکھتی ہے
فرحت احساس