نغمگی سے سکوت بہتر تھا
میں تھا اور اک کرائے کا گھر تھا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا آیا
یوں تو ہر شخص مجھ سے بہتر تھا
ہر طرف قحط آب تھا لیکن
ایک طوفان میرے اندر تھا
میں بنا تھا خلیفۂ دوراں
یوں کہ کانٹوں کا تاج سر پر تھا
میں مسلسل وہاں چلا کہ جہاں
دو قدم کا سفر بھی دوبھر تھا
گھر گیا تھا میں اک جزیرے میں
اور چاروں طرف سمندر تھا
ایک اک موج مجھ سے ٹکرائی
جرم یہ تھا کہ میں شناور تھا
وحشتوں میں بلا کا تھا پھیلاؤ
دشت اور گھر کا ایک منظر تھا
ایک دیوار درمیان رہی
ورنہ دونوں کا ایک ہی گھر تھا
غزل
نغمگی سے سکوت بہتر تھا
شریف منور