نغمۂ عشق سناتا ہوں میں اس شان کے ساتھ
رقص کرتا ہے زمانہ مرے وجدان کے ساتھ
ہے مرا ذوق جنوں کفر و خرد کی زد میں
اے خدا اب تو اٹھا لے مجھے ایمان کے ساتھ
دل بنا دوست تو کیا کیا نہ ستم اس نے کئے
ہم بھی ناداں تھے نبھاتے رہے نادان کے ساتھ
داغ ماتھے پہ چلے شیخ و برہمن لے کر
آئے تھے دیر و حرم تک بڑے ارمان کے ساتھ
غم جاناں غم ہستی غم حالات شکیلؔ
کیا کہوں کتنی بلائیں ہیں مری جان کے ساتھ
غزل
نغمۂ عشق سناتا ہوں میں اس شان کے ساتھ
شکیل بدایونی