EN हिंदी
نفرتیں نہ عداوتیں باقی ہیں (ردیف .. ی) | شیح شیری
nafraten na adawaten baqi hain

غزل

نفرتیں نہ عداوتیں باقی ہیں (ردیف .. ی)

ابن مفتی

;

نفرتیں نہ عداوتیں باقی ہیں
گر رہیں گی تو الفتیں باقی

رہ ہی جاتے ہیں سب فسانے یہاں
ہیں جو باقی محبتیں باقی

ٹمٹماتا دیا ہے بجھنے کو
رہ گئیں کچھ ہی ساعتیں باقی

ختم ہوں گی نہ یہ ملاقاتیں
یار زندہ تو صحبتیں باقی

جن پہ نازاں تھے یہ زمین و فلک
اب کہاں ہیں وہ صورتیں باقی

آج بھی ہیں بہت سے نا بینا
دیکھی جن میں بصارتیں باقی

بن کے تعویذ کچھ گلے میں ہیں
بھولے قرآں کی صورتیں باقی

حشر میں اور لحد میں جانا ہے
رہ گئیں دو ہی ہجرتیں باقی

اوج تو بندگی میں مضمر ہے
ہیچ ساری ہیں رفعتیں باقی