نفرتیں نہ عداوتیں باقی ہیں
گر رہیں گی تو الفتیں باقی
رہ ہی جاتے ہیں سب فسانے یہاں
ہیں جو باقی محبتیں باقی
ٹمٹماتا دیا ہے بجھنے کو
رہ گئیں کچھ ہی ساعتیں باقی
ختم ہوں گی نہ یہ ملاقاتیں
یار زندہ تو صحبتیں باقی
جن پہ نازاں تھے یہ زمین و فلک
اب کہاں ہیں وہ صورتیں باقی
آج بھی ہیں بہت سے نا بینا
دیکھی جن میں بصارتیں باقی
بن کے تعویذ کچھ گلے میں ہیں
بھولے قرآں کی صورتیں باقی
حشر میں اور لحد میں جانا ہے
رہ گئیں دو ہی ہجرتیں باقی
اوج تو بندگی میں مضمر ہے
ہیچ ساری ہیں رفعتیں باقی
غزل
نفرتیں نہ عداوتیں باقی ہیں (ردیف .. ی)
ابن مفتی