نفس نفس پہ نیا سوز آگہی رکھنا
کسی کا درد بھی ہو آنکھ میں نمی رکھنا
وہ تشنہ لب ہوں کہ میری انا کا ہے معیار
سمندروں سے بھی پیمان تشنگی رکھنا
رفاقتوں کے تسلسل سے جی نہ بھر جائے
جدائیوں کا بھی موسم کبھی کبھی رکھنا
وفا کسی پہ کوئی قرض تو نہیں ہوتی
جو ہو سکے تو ہمارا خیال بھی رکھنا
کہیں ستم کے اندھیرے نہ روح کو ڈس لیں
فصیل جسم پہ زخموں کی روشنی رکھنا
چراغ صبح سہی ہم ہمارے مسلک میں
روا نہیں ہے اندھیروں سے دوستی رکھنا
عجیب شخص ہے وہ بھی کہ اس کو آتا ہے
گریز میں بھی ادائے سپردگی رکھنا
تعلقات میں رخنے بھی ڈال دیتا ہے
ہر آدمی سے امیدیں نئی نئی رکھنا
ہمارا کام ہے حرفوں کو روشنی دے کر
خود اپنے ظرف میں چنگاریاں دبی رکھنا
ہوائے شب کا نہیں اعتبار اے شاعرؔ
ہزار نیند ہو آنکھیں مگر کھلی رکھنا
غزل
نفس نفس پہ نیا سوز آگہی رکھنا
شاعر لکھنوی