نفس نفس کو ہوا کی رکاب میں رکھنا
وجود اپنا کف آفتاب میں رکھنا
غریب شہر تجھے تشنگی نہ لے ڈوبے
سنبھل کے اپنا قدم دشت آب میں رکھنا
یہ وہ گلاب ہیں جو دھوپ سہہ نہیں سکتے
انہیں ہمیشہ شب ماہتاب میں رکھنا
کہ جن کا چشم نظارہ طواف کرنے لگے
کچھ ایسے نقش بھی دیوار خواب میں رکھنا
وہ خواہ پھول ہو مہتاب ہو کہ ساغر ہو
کوئی بھی شے ہو نہ اس کے جواب میں رکھنا
حسین لفظوں کی صورت ہیں خد و خال اس کے
مبارکؔ ان کو بھی اپنی کتاب میں رکھنا
غزل
نفس نفس کو ہوا کی رکاب میں رکھنا
مبارک انصاری