نئے موسم کو کیا ہونے لگا ہے
کہ مٹی میں لہو بونے لگا ہے
کوئی قیمت نہیں تھی جس کی یارو
اب اس کا مول بھی ہونے لگا ہے
بہت مشکل ہے اب اس کو جگانا
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے
جہاں ہوتا نہیں تھا کچھ بھی کل تک
وہاں بھی کچھ نہ کچھ ہونے لگا ہے
ہوا کا قد کوئی کس طرح ناپے
جسے دیکھو وہی کونے لگا ہے
ابھی تو پاؤں میں کانٹے چبھے ہیں
ابھی سے حوصلہ کھونے لگا ہے
نئی تہذیب دم توڑے گی اک دن
نہیں ہونا تھا جو ہونے لگا ہے
غزل
نئے موسم کو کیا ہونے لگا ہے
جمیلؔ مرصع پوری