EN हिंदी
نئے موسم کو کیا ہونے لگا ہے | شیح شیری
nae mausam ko kya hone laga hai

غزل

نئے موسم کو کیا ہونے لگا ہے

جمیلؔ مرصع پوری

;

نئے موسم کو کیا ہونے لگا ہے
کہ مٹی میں لہو بونے لگا ہے

کوئی قیمت نہیں تھی جس کی یارو
اب اس کا مول بھی ہونے لگا ہے

بہت مشکل ہے اب اس کو جگانا
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے

جہاں ہوتا نہیں تھا کچھ بھی کل تک
وہاں بھی کچھ نہ کچھ ہونے لگا ہے

ہوا کا قد کوئی کس طرح ناپے
جسے دیکھو وہی کونے لگا ہے

ابھی تو پاؤں میں کانٹے چبھے ہیں
ابھی سے حوصلہ کھونے لگا ہے

نئی تہذیب دم توڑے گی اک دن
نہیں ہونا تھا جو ہونے لگا ہے