EN हिंदी
نئے جہانوں کا اک استعارہ کر کے لاؤ | شیح شیری
nae jahanon ka ek istiara kar ke lao

غزل

نئے جہانوں کا اک استعارہ کر کے لاؤ

سالم سلیم

;

نئے جہانوں کا اک استعارہ کر کے لاؤ
بدن کی خاک اٹھاؤ ستارہ کر کے لاؤ

وگرنہ عشق میں اک آنچ کی کمی ہوگی
یہ دل ہے جاؤ اسے پارہ پارہ کر کے لاؤ

تمہارے پاس ہی ہم خود کو چھوڑ آئے ہیں
کبھی تم آؤ تو ہم کو ہمارا کر کے لاؤ

ہوس کے گہرے سمندر سے ہیں گھرے ہوئے ہم
ہمارے سامنے خود کو کنارا کر کے لاؤ

تمام بچھڑے ہوؤں کو ملاؤ آج کی رات
تمام کھوئے ہوؤں کو اشارا کر کے لاؤ