نئے جہاں میں پرانی شراب لے آئے
اندھیری رات میں ہم آفتاب لے آئے
مرے یقین میں گنجائش دلیل نہیں
جواز ڈھونڈنے والے کتاب لے آئے
پڑے تھے ایک ہی عالم میں اہل مے خانہ
شکست جام سے ہم انقلاب لے آئے
وہ کامیاب محبت ہیں جو ترے در سے
خود اپنے آپ کو نا کامیاب لے آئے
تمام عمر جو چھایا رہے گا آنکھوں میں
تمہاری بزم سے ہم ایسا خواب لے آئے
یہاں تو ایک بھی غم آشنا نہیں اپنا
فرشتے مجھ کو کہاں بے نقاب لے آئے
حیات عشق میں ہم توڑ کر قیود وفا
کسی بھی طور سہی انقلاب لے آئے
وہی سفینے جو طوفاں شناس تھے فطرت
سکوت شہر میں اک اضطراب لے آئے

غزل
نئے جہاں میں پرانی شراب لے آئے
فطرت انصاری