ندیمؔ ان کی زباں پر پھر ہمارا نام ہے شاید
ہماری فکر میں پھر گردش ایام ہے شاید
سر کوئے بتاں جو ایک انبوہ حریفاں ہے
فراز بام پر اب بھی وہ جلوہ عام ہے شاید
مرے احباب بھی خوش ہیں مری بربادئ دل پر
سلوک دوستاں لوگو اسی کا نام ہے شاید
سر محفل نگاہوں کا تصادم دیکھنے والو
کسی کو پھر کسی سے آ پڑا کچھ کام ہے شاید
عجب انداز سے آئی ہے کچھ اٹھکھیلیاں کرتی
شمیم جاں فزا کے پاس کچھ پیغام ہے شاید
خیال آتا ہے اکثر دیکھ کر رخسار و گیسو کو
نہ ایسی صبح ہے شاید نہ ایسی شام ہے شاید
نظر بھی اب نہیں اٹھتی ہماری سمت محفل میں
ندیمؔ ایثار و الفت کا یہی انجام ہے شاید

غزل
ندیمؔ ان کی زباں پر پھر ہمارا نام ہے شاید
راج کمار سوری ندیم