ندیم باغ میں جوش نمو کی بات نہ کر
بہار آ تو گئی رنگ و بو کی بات نہ کر
عجیب بھول بھلیاں ہے شاہراہ حیات
بھٹکنے والے یہاں جستجو کی بات نہ کر
تباہ کر نہ مذاق جنوں کی خودداری
دل تباہ کسی تند خو کی بات نہ کر
خود اپنے طرز عمل کو سنوار اور سنوار
مرے رفیق طریق عدو کی بات نہ کر
گریز حسن کو انداز حسن کہتے ہیں
نظر سے دیکھ مگر خوبرو کی بات نہ کر
یہ برق حسن جلاتی تو ہے مگر ناصح
وہ اور شے ہے مرے شعلہ خو کی بات نہ کر
یہ میکدے کی فضا کہہ رہی ہے اے اخترؔ
کہ تشنگی میں بھی جام و سبو کی بات نہ کر
غزل
ندیم باغ میں جوش نمو کی بات نہ کر
اختر انصاری اکبرآبادی