EN हिंदी
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا | شیح شیری
naz-e-beganagi mein kya kuchh tha

غزل

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا

ناصر کاظمی

;

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہد آوارگی میں کیا کچھ تھا

آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے
عالم بے خودی میں کیا کچھ تھا

یاد ہیں مرحلے محبت کے
ہائے اس بیکلی میں کیا کچھ تھا

کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا

کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا

رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا