ناوک زنی نگاہ کی اے جان جاں ہے ہیچ
جب تیر ہی نہ پار ہوا تو کماں ہے ہیچ
دیر و حرم بھی ہیچ ہیں اور ہیچ باغ و راغ
کوئی جگہ ہو بے ترے اے لا مکاں ہے ہیچ
فردوس ہم کو سایۂ دامان یار ہے
دنیا کی اصل کچھ نہیں باغ جناں ہے ہیچ
کچھ موت کا نہ غم ہے نہ کچھ راحت حیات
کوچے میں اس کے مجھ کو بہار و خزاں ہے ہیچ
چارہ گری کرے گا جو وہ ہے مزاج داں
درد دروں کا روبرو اس کے بیاں ہے ہیچ
ہو جا کے کوئے یار میں اے مرغ جاں مقیم
باغ و بہار ہیچ ہے اور آشیاں ہے ہیچ
قاتل کے پاس جاؤں گا میں خود ہی سر بکف
مقتل میں اس کا آنا پئے امتحاں ہے ہیچ
کیا تکیہ اس پہ کیجیے عالم ہے بے ثبات
ہستی عبث حیات عبث جسم و جاں ہے ہیچ
توحید عشق میں مجھے دونوں ہیں ایک سے
مرگ و حیات ہیچ ہے سود و زیاں ہے ہیچ
جو اس کی خوبیوں کا ثنا خواں نہ ہو کبھی
وہ ہیچ اور اس کے دہن میں زباں ہے ہیچ
ہوں محو دید آنکھ اٹھاؤں میں کس طرف
دیکھوں میں کس کو جز ترے حسن بتاں ہے ہیچ
جز ذکر یار اور کہانی نہیں پسند
سب قصے مجھ کو ہیچ ہیں اور قصہ خواں ہے ہیچ
نالاں جو ہیں جہاں میں غم عشق سے ترے
ناقوس ان کو ہیچ ہے بانگ اذاں ہے ہیچ
کیا اصل تیغ کی ترے ابرو کے سامنے
تیر مژہ کے سامنے نوک سناں ہے ہیچ
ہیں بند آنکھیں برقؔ کی دل میں ہے تیری یاد
کیا دیکھے سر اٹھا کے اسے سب جہاں ہے ہیچ

غزل
ناوک زنی نگاہ کی اے جان جاں ہے ہیچ
شیام سندر لال برق