ناؤ طوفان میں جب زیر و زبر ہوتی ہے
ناخدا پر کبھی موجوں پہ نظر ہوتی ہے
دور ہے منزل مقصود سفر ہے درپیش
سونے والوں کو جگا دو کہ سحر ہوتی ہے
اور بڑھ جاتی ہے کچھ قوت احساس عمل
جتنی دشوار مری راہگزر ہوتی ہے
گھر کے چھٹنے کا اثر عالم غربت کا خیال
کیفیت دل کی عجب وقت سفر ہوتی ہے
کیا گزرتی ہے گلوں پر کوئی ان سے پوچھے
نام گلشن کا ہے کانٹوں پہ بسر ہوتی ہے
عزم کہتا ہے مرا میں بھی تو دیکھوں آخر
کون سی ہے وہ مہم جو نہیں سر ہوتی ہے
کون کہتا ہے غریب الوطنی میں ساقیؔ
ساتھ لے دے کے فقط گرد سفر ہوتی ہے
غزل
ناؤ طوفان میں جب زیر و زبر ہوتی ہے
اولاد علی رضوی