ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے
اس سے پہلے کہ یہ پانی مرے سر سے گزرے
پھر سماعت کو عطا کر جرس گل کی صدا
قافلہ پھر کوئی اس راہ گزر سے گزرے
کوئی دستک نہ صدا کوئی تمنا نہ طلب
ہم کہ درویش تھے یوں بھی ترے در سے گزرے
غیرت عشق تو کہتی ہے کہ اب آنکھ نہ کھول
اس کے بعد اب نہ کوئی اور ادھر سے گزرے
میں تو چاہوں وہ سر دشت ٹھہر ہی جائے
پر وہ ساون کی گھٹا جیسا ہے برسے گزرے
حبس کی رت میں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا
باد و باراں کے خدا میرے بھی گھر سے گزرے
مجھ کو محفوظ رکھا ہے مرے چھوٹے قد نے
جتنے پتھر ادھر آئے مرے سر سے گزرے

غزل
ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے
سعد اللہ کلیم