ناصح نہ بک زیادہ مرا مان یہ سخن
مجھ سیتی چھوٹے عشق ہے امکان یہ سخن
تسبیح نماز روزہ سے مجھ کو نہیں ہے کام
میں بت پرست ہوں مرا پہچان یہ سخن
ہر روز مجھ کو عشق سے کیوں روکتا ہے تو
آخر کو کھو رہا ہے تری جان یہ سخن
دل دار دل ربا ہیں مرے دل کے مشتری
میں ان کا ہوں مری جان یہ سخن
اتنے میں میرا یار مرے پاس آ گیا
کہنے لگا کہ کیا ہے مہربان یہ سخن
اس بے حیا سے کاہے کو خالی کرو ہو مغز
یہ بے وقوف ہے جو کہے آن یہ سخن
طالب کو معرفت کے سبھی چیز ہیں معاف
اکثر کے کہہ گئے ہیں قدردان یہ سخن
القصہ ہو خموش کیا میں نے یہ یقیں
جب منہ سے یار کے پڑا مجھ کو کان یہ سخن
بہتر ہے سب سے دوستی اپنی خدا کی نینؔ
فعل عبث ہے یاری گیہان یہ سخن
غزل
ناصح نہ بک زیادہ مرا مان یہ سخن
نین سکھ