ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
دل یار سے پھٹے تو کسی سے رفو نہ ہو
اس دل کو دے کے لوں دو جہاں یہ کبھو نہ ہو
سودا تو ہووے تب یہ کہ جب اس میں تو نہ ہو
آئینۂ وجود عدم میں اگر ترا
وہ درمیاں نہ ہو تو کہیں ہم کو رو نہ ہو
جھگڑا تو حسن و عشق کا چکتا ہے پل کے بیچ
گر محکمے میں قاضی کے تو روبرو نہ ہو
قطرہ کی کھل گئی ہے گرہ ورنہ اے نسیم
شور دماغ مرغ چمن گل کی بو نہ ہو
گزرے سو گزرے اہل زمیں اوپر اے فلک
آئندہ یاں تلک تو کوئی خوب رو نہ ہو
دل لے کے تجھ سے برق کے شعلے کو دیجیے
پر ہے یہ ڈر کہ اس کی بھی ایسی ہی خو نہ ہو
گل کی نہ تخم مرغ چمن کر سکے تلاش
ہم خام فطرتوں سے تری جستجو نہ ہو
سوداؔ بدل کے قافیہ تو اس غزل کو کہہ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو
غزل
ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
محمد رفیع سودا