EN हिंदी
ناروا ہے کسی کی ہم راہی | شیح شیری
narawa hai kisi ki hamrahi

غزل

ناروا ہے کسی کی ہم راہی

نریش کمار شاد

;

ناروا ہے کسی کی ہم راہی
راہ میں جا رہا ہوں تنہا ہی

پھر بھی کیسا نفیس دھوکا ہے
رنگ و بو ہے اگرچہ دھوکا ہی

دل تری یاد میں تڑپتا ہے
جیسے بے آب ہو کوئی ماہی

فیض ساقی کا عام تھا ہر چند
ہم کو رہنا مگر تھا پیاسا ہی

آدمی تو فقیر ہی سا ہے
ٹھاٹ ہیں شادؔ کے مگر شاہی