EN हिंदी
نام سے تیرے جو روشن مطلع دیواں ہوا | شیح شیری
nam se tere jo raushan matla-e-diwan hua

غزل

نام سے تیرے جو روشن مطلع دیواں ہوا

رادھے شیام رستوگی احقر

;

نام سے تیرے جو روشن مطلع دیواں ہوا
ہر ورق خورشید کے مانند نور افشاں ہوا

تیری ہی قدرت سے پیدا ہے زمین و آسماں
خاک کا پتلا تجلی سے تری انساں ہوا

تیرے ابر فیض سے تازہ ہے باغ کائنات
کیا گل عالم نسیم فضل سے خنداں ہوا

قدر رکھتا ہے سلیماں سے زیادہ مور بھی
جو گدا دروازے کا تیرے ہوا سلطاں ہوا

یاد سے تیری دل ناشاد اپنا شاد ہے
ذکر تیرا میرے درد فکر کا درماں ہوا

سر بلندی میں بھی مجھ کو فخر کی دولت ملی
اللہ اللہ کس قدر مجھ پر ترا احساں ہوا

حلقۂ صاحب دلاں میں تیرا احقرؔ نام ہے
یہ سمجھ لے چاک تیرا نامۂ عصیاں ہوا