EN हिंदी
نام ہی رہ گیا اک انجمن آرائی کا | شیح شیری
nam hi rah gaya ek anjuman-arai ka

غزل

نام ہی رہ گیا اک انجمن آرائی کا

مغنی تبسم

;

نام ہی رہ گیا اک انجمن آرائی کا
چھپ گیا چاند بھی اب تو شب تنہائی کا

دل سے جاتی نہیں ٹھہرے ہوئے قدموں کی صدا
آنکھ نے سوانگ رچا رکھا ہے بینائی کا

ایک اک یاد کو آہوں سے جلاتا جاؤں
کام سونپا ہے عجب اس نے مسیحائی کا

اب نہ وہ لمس نگاہوں کا نہ خوشبو کی صدا
دل نے دیکھا تھا مگر خواب شناسائی کا

ساعت درد فروزاں ہے بہا لیں آنسو
ٹوٹنے کو ہے کڑا وقت شکیبائی کا