نام ہی رہ گیا اک انجمن آرائی کا
چھپ گیا چاند بھی اب تو شب تنہائی کا
دل سے جاتی نہیں ٹھہرے ہوئے قدموں کی صدا
آنکھ نے سوانگ رچا رکھا ہے بینائی کا
ایک اک یاد کو آہوں سے جلاتا جاؤں
کام سونپا ہے عجب اس نے مسیحائی کا
اب نہ وہ لمس نگاہوں کا نہ خوشبو کی صدا
دل نے دیکھا تھا مگر خواب شناسائی کا
ساعت درد فروزاں ہے بہا لیں آنسو
ٹوٹنے کو ہے کڑا وقت شکیبائی کا

غزل
نام ہی رہ گیا اک انجمن آرائی کا
مغنی تبسم