EN हिंदी
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا | شیح شیری
nam behad the magar un ka nishan koi na tha

غزل

نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا

منیر نیازی

;

نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا

خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا

کیا بلا کی شام تھی صبحوں شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا

کوکتی تھی بانسری چاروں دشاؤں میں منیرؔ
پر نگر میں اس صدا کا رازداں کوئی نہ تھا