نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی بانسری چاروں دشاؤں میں منیرؔ
پر نگر میں اس صدا کا رازداں کوئی نہ تھا
غزل
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
منیر نیازی