EN हिंदी
نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا | شیح شیری
nala-e-mauzun se misra aah ka chaspan hua

غزل

نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا

جرأت قلندر بخش

;

نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
زور یہ پر درد اپنا مطلع دیواں ہوا

جس نے دیکھا آ کے یہ آئینہ خانہ دہر کا
فی الحقیقت بس وہ اپنا آپ ہی حیراں ہوا

سب پہ ظاہر ہو گئی بیتابیٔ دل شکل برق
وہ بھبھوکا اپنی نظروں سے جو ٹک پنہاں ہوا

اس کے جانے سے یہ دل میں آئے ہے رہ رہ کے ہائے
سب جہاں بستا ہے اک اپنا ہی گھر ویراں ہوا

کاش دل سے چشم تک آنے نہ پاتا طفل اشک
رفتہ رفتہ اب تو یہ لڑکا کوئی طوفاں ہوا

گر ہوئے وا اس کے لب تو دیکھیے کیا گل کھلے
ہو خفا جب بے طرح وہ رونق بستاں ہوا

آئے جو مرقد پہ میرے سو مکدر ہو گئے
خاک ہو کر بھی غبار خاطر یاراں ہوا

روز و شب رہنے لگے اس گھر میں یہ کافر صنم
کعبۂ دل صاف اپنا اب تو کفرستاں ہوا

جوش وحشت دیکھیو کوئی کہ ہر اک خار کے
دھجیاں ہو کر گلے کا ہار یہ داماں ہوا

اشک رنگیں نے جو اپنے کر دیا یاں فرش گل
رشک صد گلشن ہمیں یہ گوشۂ زنداں ہوا

بندھ گیا تیرا تصور جس کی آنکھوں کے حضور
اس کو بس عالم وصال و ہجر کا یکساں ہوا

یک بہ یک تو نے یہ کیسا رنگ بدلا اے فلک
تیری گردش سے کہیں کیا سخت جی ہلکاں ہوا

کل تلک جو گھر گھر اپنا تھا سو اس کے در پہ آج
نیلا پیلا دیکھ کر کیا کیا ہمیں درباں ہوا

گرچہ ہر قالب میں جرأتؔ صورتیں ڈھلتی رہیں
پر بنا جو درد کا پتلا وہ ہی انساں ہوا