EN हिंदी
ناخدا بھی نہیں خدا بھی نہیں | شیح شیری
naKHuda bhi nahin KHuda bhi nahin

غزل

ناخدا بھی نہیں خدا بھی نہیں

خلیل راضی

;

ناخدا بھی نہیں خدا بھی نہیں
کوئی میرا ترے سوا بھی نہیں

مدعا غیر مدعا بھی نہیں
اور حسرت کا پوچھنا بھی نہیں

کاہش غم حریف جاں ہی سہی
غم نہ ہو تو یہاں مزا بھی نہیں

شیشۂ دل تو چور ہے لیکن
آسرا ہے کہ ٹوٹتا بھی نہیں

حسن کا عکس ہے حجاب نظر
پھر جنوں کو تو سوجھتا بھی نہیں

بزم سے ان کی اٹھ گیا خود میں
کوئی پرسان حال تھا بھی نہیں

عشق میں پڑ کے لٹ گیا رازیؔ
ان کو غم ہے کہ کچھ ہوا بھی نہیں