نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے
ورنہ تعلقہ مرا نقصان ہی کا ہے
کلفت ہے سب کی سب یہ توقع کے نام کی
جو بھی کیا دھرا ہے یہ امکان ہی کا ہے
مال و منال دست گہہ حادثات کا
رہتے ہیں گر بحال تو اوسان ہی کا ہے
منظر وہ ہے کہ جو کبھی ششدر نہ کر سکے
حیرت یہ ہے کہ دیدۂ حیران ہی کا ہے
الزام خود ہوں میں یہاں ہستی کے نام پر
میرا وجود اصل میں بہتان ہی کا ہے
تفصیل میں تو سمٹا ہوا ہی تھا انکسار
اجمال بھی یہ عجز کے عنوان ہی کا ہے
آخر عیاں ہوا کہ مراسم کی ذیل میں
اسباب دل شکستگی پیمان ہی کا ہے
جب تک بہ دوش رہتا ہے رہتا ہوں گامزن
میرا سفر حقیقتاً سامان ہی کا ہے
اترے وہ ناؤ شوق سے ہو ڈوبنا جسے
ساحل مزاج بحر کا طوفان ہی کا ہے
آوارگاں کے واسطے کردار دشت کا
انجام کار حیطۂ زندان ہی کا ہے
جائے پناہ اس کی کوئی دوسری نہیں
خاورؔ کہیں کا ہے تو بیابان ہی کا ہے

غزل
نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے
خاور جیلانی