EN हिंदी
ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق | شیح شیری
nadan kahan tarab ka sar-anjam aur ishq

غزل

ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق

انشاءؔ اللہ خاں

;

ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
کچھ بھی تجھے شعور ہے آرام اور عشق

لینے نہ دیویں گے مجھے ٹک چین جیتے جی
دشمن یہ دونو گردش ایام اور عشق

یاں غش ہیں شوق طوف ہیں یاران کعبہ کو
اے نامہ بر تو کہیو یہ پیغام اور عشق

کیا نام لے کے اس کا پکارا کروں کہ یاں
رکھتا ہے ہر زبان میں اک نام اور عشق

پوچھا کسی نے قیس سے تو ہے محمدی
بولا وہ بھر کے آہ کہ اسلام اور عشق

اسباب کائنات سے بس ہو کے بے نوا
انشاؔ نے انتخاب کیا جام اور عشق