نادان دل فریب محبت نہ کھا کبھی
دنیا میں کس نے کی ہے کسی سے وفا کبھی
ایسا بھی اتفاق جنوں میں ہوا کبھی
میں ہنستے ہنستے سوچ کے کچھ رو پڑا کبھی
بیٹھا ہوں اس امید پہ اک رہ گزار پر
لے آئے اس طرف تجھے شاید خدا کبھی
اے دل یہ میرا حسن سماعت نہ ہو کہیں
تو نے بھی کیا سنی ہے وہ آواز پا کبھی
اس رشک گل کے ساتھ گئی تھی خرام کو
پھر لوٹ کر ادھر نہیں آئی صبا کبھی
رفعتؔ غموں کی تیز ہواؤں کے باوجود
ہم نے چراغ دل کا نہ بجھنے دیا کبھی
غزل
نادان دل فریب محبت نہ کھا کبھی
رفعت سلطان