EN हिंदी
ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا | شیح شیری
na-tawani mein palak ko bhi hilaya na gaya

غزل

ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا

زین العابدین خاں عارف

;

ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا
دیکھ کے ان کو اشارے سے بلایا نہ گیا

سخت تر سنگ سے بھی دل ہے انہوں کا شاید
نقش جس پر کسی عنوان بٹھایا نہ گیا

گلشن خلد میں ہر چند کہ دل بہلایا
کوچۂ یار مگر دل سے بھلایا نہ گیا

شکن زلف سے دل صاف نظر آتا ہے
اس اندھیرے میں تعجب ہے چھپایا نہ گیا

دیکھ کر کل وہ مرا حال پریشاں عارفؔ
ایسا گھبرائے کہ آنکھوں کو چرایا نہ گیا