EN हिंदी
نا شناسی کا ہمیشہ غم رہا | شیح شیری
na-shanasi ka hamesha gham raha

غزل

نا شناسی کا ہمیشہ غم رہا

علیم اللہ حالی

;

نا شناسی کا ہمیشہ غم رہا
آئنہ بھی اپنا نامحرم رہا

آگ ہے اس پر ہے یہ بے شعلگی
اپنے جلنے کا عجب عالم رہا

سارے اونچے گھر ہوا کی زد میں تھے
میرا ملبہ تھا جو مستحکم رہا

میں بھی سیل آرزو میں بہہ گیا
وہ بھی غرق گرمیٔ شبنم رہا

ہم گرے بھی تو انا کے غار میں
ٹوٹتے پر بھی وہی دم خم رہا

اب ہے حالیؔ بے نیازی کا خلا
اب کہاں احساس بیش و کم رہا