نارسائی کا چلو جشن منائیں ہم لوگ
شاید اس طرح سے کچھ کھوئیں تو پائیں ہم لوگ
ریت ہی ریت اگر اپنا مقدر ٹھہرا
کیونکہ پھر ایک گھروندا ہی بنائیں ہم لوگ
جسم کی قید کوئی قید نہیں ہوتی ہے
آؤ سب جھوٹی حدیں توڑ کے جائیں ہم لوگ
اس بدلتے ہوئے موسم کا بھروسا بھی نہیں
گیلی مٹی پہ کوئی نقش سجائیں ہم لوگ
روک پائیں گے نہ لمحات کے موسم ہم کو
ایک دیوار زمانہ تو ہوائیں ہم لوگ
اپنے جذبات کے پاکیزہ تحفظ کے لئے
کبھی ملبوس کبھی گرم ردائیں ہم لوگ
کوئی سورج نہ کسی رات کے دامن میں گرا
مانگتے ہی رہے صدیوں سے دعائیں ہم لوگ
چاند اترا نہیں اب تک بھی زمیں پر شبنمؔ
ایک مدت ہوئی دیتے ہیں صدائیں ہم لوگ

غزل
نارسائی کا چلو جشن منائیں ہم لوگ
رفیعہ شبنم عابدی