EN हिंदी
ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو | شیح شیری
na-guzir-e-rishtagi sa hai to ho

غزل

ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو

شاہ حسین نہری

;

ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو
ورنہ مجھ سے کیا علاقہ ہے تو ہو

وہ مجھے دیکھے نہ میں پاؤں اسے
اب کوئی میرا شناسا ہے تو ہو

پر کشش ہیں راستے کے پیچ و خم
چین پانے کا ٹھکانا ہے تو ہو

سامنے ہیں آسمانی وسعتیں
بے زمینی کا زمانہ ہے تو ہو

چہرۂ احساس پر ہے تازگی
آدمی ہونا پرانا ہے تو ہو

نازکی اک گل بدن کی ساتھ ہے
اب اگر پہلو میں کانٹا ہے تو ہو

اپنی بنتی ہی نہیں ہے شاہؔ سے
آدمی یہ شخص اچھا ہے تو ہو