EN हिंदी
ناآشنائے درد نہیں بے وفا نہیں | شیح شیری
na-ashna-e-dard nahin bewafa nahin

غزل

ناآشنائے درد نہیں بے وفا نہیں

رفعت سلطان

;

ناآشنائے درد نہیں بے وفا نہیں
اک آشنا کہ ہائے مرا آشنا نہیں

لاؤں جو دل کی بات زباں پر تو کس لیے
میں جانتا نہیں ہوں کہ تو جانتا نہیں

جلتا رہا ہوں زیست کے دوزخ میں عمر بھر
یہ اور بات ہے مری کوئی خطا نہیں

اک ساغر حیات کی خاطر تمام عمر
وہ کون سا ہے زہر جو میں نے پیا نہیں

شاید درود فصل بہاراں قریب ہے
اہل جنوں نے چاک گریباں سیا نہیں

حسن عروس گل کہ جمال سمن براں
دنیا میں کچھ بھی ذوق نظر کے سوا نہیں

تیرے حریم ناز کی اس کو خبر ہو کیا
جو سرحد خیال سے آگے گیا نہیں

رفعتؔ جہاں میں رسم وفا ہی نہیں رہی
ان سے تو کیا کسی سے بھی مجھ کو گلا نہیں