EN हिंदी
نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا | شیح شیری
na zinda na murda na duniya na din ka

غزل

نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا

میر محمد سلطان عاقل

;

نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا
مجھے تو نے ظالم نہ رکھا کہیں کا

عبث امتحاں میں لگاتے ہو وقفہ
بھروسا ہے کیا میری جان حزیں کا

مجھے گھر میں گردش ہے پتلی کی صورت
یہ اعجاز ہے چشم سحر آفریں کا

پرانا نہ فتنہ ترے گھر سے اٹھا
نیا آسماں ہے مگر اس زمیں کا

کبھی میرے تن میں کبھی اس کے گھر میں
یہی شغل ہے میری جان حزیں کا

غضب ہے مری اس سے تکرار وعدہ
ستم ہے جو موقع ملا اب نہیں کا

سنا تو نے عاقلؔ عجب رات گزری
محبت کا مذکور نکلا کہیں کا