نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
جان مے خانہ تری نرگس مستانہ بنے
پرتو رخ کے کرشمے تھے سر راہ گزر
ذرے جو خاک سے اٹھے وہ صنم خانہ بنے
کار فرما ہے فقط حسن کا نیرنگ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے
غزل
نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
اصغر گونڈوی