نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ
تم اسے خزاں کہو گے کہ بہار کا زمانہ
میں وفاؤں کا ہوں پیکر مرا جذب مخلصانہ
مجھے آزما لے ہمدم جو تو چاہے آزمانا
تو مجھے تباہ کر دے تو مرا نشاں مٹا دے
نہ کروں گا میں گوارا مگر اپنا سر جھکانا
جو اسے کوئی سنے گا تو بھلا یقیں کرے گا
یہ جناب شیخ ہمدم یہ در شراب خانہ
یہ عطائے عشق ہی ہے کہ بنا ہوں میں غزل خواں
نہ تھا اس کے پہلے دانشؔ مرا ذوق شاعرانہ
غزل
نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ
دانش فراہی