نہ وہ شعور کی لو ہے نہ وہ نظر کا چراغ
بجھا پڑا ہے بڑی دیر سے ہنر کا چراغ
اندھیری رات کا دل چیرتا ہو جیسے کوئی
چلا ہے لے کے ہتھیلی پہ کوئی سر کا چراغ
اسی کا نور وراثت ہے ابن آدم کی
وہ زندگی جسے کہتے ہیں ہم سحر کا چراغ
میں اپنے حرف ملامت کا خود شکار ہوا
کہ گھر میں آگ لگی جس سے تھا وہ گھر کا چراغ
اک آنے والے کا ہے کب سے انتظار اسے
کہو ہوا سے بجھائے نہ اس کے در کا چراغ
جو قلب و جاں میں نہ سوز خلوص ہو اے نازؔ
دعا کے طاق میں کیسے جلے اثر کا چراغ
غزل
نہ وہ شعور کی لو ہے نہ وہ نظر کا چراغ
ناز قادری