EN हिंदी
نہ وہ شعور کی لو ہے نہ وہ نظر کا چراغ | شیح شیری
na wo shuur ki lau hai na wo nazar ka charagh

غزل

نہ وہ شعور کی لو ہے نہ وہ نظر کا چراغ

ناز قادری

;

نہ وہ شعور کی لو ہے نہ وہ نظر کا چراغ
بجھا پڑا ہے بڑی دیر سے ہنر کا چراغ

اندھیری رات کا دل چیرتا ہو جیسے کوئی
چلا ہے لے کے ہتھیلی پہ کوئی سر کا چراغ

اسی کا نور وراثت ہے ابن آدم کی
وہ زندگی جسے کہتے ہیں ہم سحر کا چراغ

میں اپنے حرف ملامت کا خود شکار ہوا
کہ گھر میں آگ لگی جس سے تھا وہ گھر کا چراغ

اک آنے والے کا ہے کب سے انتظار اسے
کہو ہوا سے بجھائے نہ اس کے در کا چراغ

جو قلب و جاں میں نہ سوز خلوص ہو اے نازؔ
دعا کے طاق میں کیسے جلے اثر کا چراغ