نہ وہ جذبات کی لہریں نہ احساسات کا دریا
لیے پھرتا ہوں آنکھوں میں عجب خدشات کا دریا
مچلتی شوخ موجوں کو میں اپنے نام کیوں لکھوں
کہ آخر خشک ہوگا موسم برسات کا دریا
کسے معلوم یہ کشتی لگے کس گھاٹ پر جا کر
بہا لے جائے کیا جانے کدھر حالات کا دریا
کہاں اس آنکھ کا جگنو کہ چمکے بھی تو چھپنے کو
کہاں ہم بیکسوں کی باطنی ظلمات کا دریا
ہوائیں چپ خلا ویراں فضا غمگیں سفر مشکل
رواں حد نظر تک جبر کے لمحات کا دریا
زباں کی خامشی تقریر کو دفنا نہیں سکتی
نہیں رکتا فگارؔ الفاظ و تخلیقات کا دریا
غزل
نہ وہ جذبات کی لہریں نہ احساسات کا دریا
امر سنگھ فگار