EN हिंदी
نہ وہ درد ہے نہ وہ رنج ہے نہ ہجوم ظلمت شام ہے | شیح شیری
na wo dard hai na wo ranj hai na hujum zulmat-e-sham hai

غزل

نہ وہ درد ہے نہ وہ رنج ہے نہ ہجوم ظلمت شام ہے

خالد فتح پوری

;

نہ وہ درد ہے نہ وہ رنج ہے نہ ہجوم ظلمت شام ہے
مرے خشک ہونٹوں پہ یک بیک جو چمک اٹھا ترا نام ہے

کبھی کہکشاں سے گزر گئے کبھی بزم گل میں اتر گئے
جو سمجھ گئے تو ٹھہر گئے ترا در ہی اپنا مقام ہے

مرے غم ہیں کتنے عجیب سے وہ ملا کہاں ہے نصیب سے
یہاں قرب کی مجھے آرزو وہاں دور ہی سے سلام ہے

جو چھپا کے پیاسوں سے میں پیوں جو کسی کے ہاتھ سے چھین لوں
تو وہ پیاس مجھ سے گناہ ہے تو وہ جام مجھ پہ حرام ہے

سنو سر پھرو مرے حاسدو مری زندگی کا ہے راز کیا
مرا سر کہیں بھی جھکے تو کیوں مرا دل کسی کا غلام ہے

ہمیں تھی خبر یہ تو پیشتر کہ ہے آستیں میں چھپی چھری
ملے پھر گلے یہی سوچ کر چلو لب پہ اس کے تو رام ہے

میں وہی ہوں خالدؔ نارسا مجھے جانتا ہے یہ مے کدہ
مرا جام جام میں عکس ہے مرا بوند بوند میں نام ہے