نہ اس کے نام سے واقف نہ اس کی جا معلوم
ملے گا دیکھیے کیوں کر وہ بت خدا معلوم
جواب دیکھیے دل لے کے یہ کہا چپکے
نہ ہو یہ اور کسی کو ترے سوا معلوم
لگا کے زخم جگر پر جو پھر نمک چھڑکا
تو اس میں ہم کو ہوا اور ہی مزا معلوم
بدن پری کا ترے تن سے گو کہ گورا ہے
ولے وہ چاہے کہ ایسا ہو گدگدا معلوم
ہم اس پہ مرتے ہیں مدت سے اور وہ کہتا ہے
قسم خدا کی ہمیں تو یہ اب ہوا معلوم
کیا تھا عہد نہ وعدہ نہ قول نے اقرار
جو آ گیا وہ مرے پاس شب کو نا معلوم
جو مجھ سے ہنس کے کہا جس لیے ہم آئے ہیں
نظیرؔ تم نے بھی سچ کہیو کیا کیا معلوم
کہا یہ میں نے مجھے کیا خبر تمہیں جانو
کسی کے دل کی بھلا جی کسی کو کیا معلوم
غزل
نہ اس کے نام سے واقف نہ اس کی جا معلوم
نظیر اکبرآبادی